عنوان:انگوٹھی کا وزن کتنا ہونا چاہئے، اگر انگوٹھی میں چاندی کے ساتھ دوسری دھات ہو تو؟
سوال 1-اسٹرلنگ چاندی کی انگوٹھی جس میں 5.92فیصد چاندی اور5.7 فیصد تانبہ ہوتا ہے تو ایسی انگوٹھی کا پہننا کیسا ہے؟
– فقہ حنفی میں چاندی کی انگوٹھی مرد کے لیے ساڑے چار ماشہ سے کم والی جائز ہے تو اگر چاندی سوال 2- گھیراؤ میں کوئی ڈزائن یا کھدائی ہوئی ہو تو اس کا استعمال کیسا ہے؟
سوال 3-مہر والی انگوٹھی پہن سکتے ہیں؟ یعنی اگر پتھر پر کوئی نشان (سمبل) یا نام کا مہر ہو تو وہ پہن سکتے ہیں؟
سائل عنایت الله صاحب
جھارکھنڈ
باسمه تعالی والصلاۃ والسلام علی رسولہ الأعلی
الجواب: (۱)مرد کے لیے سونا اور چاندی مطلقا حرام ہے، البتہ چاندی کی صرف ایک انگوٹھی ایک نگ والی جائز ہے جس کا وزن ایک مثقال کے برابر نہ ہو یعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو۔
عمدۃ الخلف شیخ الحدیث مفتی صالح نوری کی تحقیق کے مطابق جدید اوزان میں ایک مثقال کا وزن چار گرام چھ سو پینسٹھ ملی گرام اور تین خمس (4.6656/4.665.3/5)ہے۔ (منتخب فتوی،ص:٢٤، جامعۃ الرضا بریلی شریف)
حدیث پاک میں ہے:’’عن عبد الله بن بریدۃ عن ابیه ان رجلاً جاء إلى النبي وعليه خاتم من شبه فقال له: ما لي أجد منك ريح الأصنام فطرحه ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار فطرحه فقال یا رسول الله مِن أیِّ شئٍ أتخذہ قال اتخذہ من ورق ولا تتمه مثقالا‘‘۔ ( ابو داؤد شریف کتاب الخاتم حدیث:٤٢٢٣، ص:٤٦١، بیت الافکار الدولیة)
در مختار میں ہے:’’(ولا يتحلى) الرجل (بذهب و فضة) مطلقا (إلا بخاتم)‘‘۔(رد المحتار على الدر المختار ج:٩، ص:٥١٦، دار عالم الكتب)
اسی ميں ہے:’’ولا یزیدہ من مثقال‘‘۔ (أيضا، ص:٥٢٠)
اور اگر چاندی میں کسی دوسری دھات کی آمیزش ہو تو اعتبار غلبہ کا ہے۔
ہدایہ میں ہے:’’واذا كان الغالب على الورق الفضة فهو في حكم الفضة‘‘۔(البناية شرح الهداية، ج:٣، ص:٣٧٣ دار الكتب العلمية)
اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں:’’شرعا چاندی کی ایک انگوٹھی ایک نگ کی کہ وزن میں ساڑھے چار ماشہ سے کم ہو پہننا جائز ہے اگر چہ بے حاجت مہر اس کا ترک افضل ہے، اور مہر کی غرض سے خالی جواز نہیں بلکہ سنت ہے ہاں تکبر یا زنانہ پن کا سنگار یا اور کوئی غرض مذموم نیت میں ہو تو ایک انگوٹھی کیا اس نیت سے اچھے کپڑے پہننے بھی جائز نہیں، اس کی بات جدا ہے یہ قید ہر جگہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ سارا دارومدارنیت پر ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ قديم ج:٩ ص:٤٢،٤٣ رضا اکیڈمی)
لہذا صورت مسئولہ میں اسٹرلنگ چاندی کی انگوٹھی جس میں چاندی زیادہ ہو اور دوسری دھات کم ہو تو اس کا پہننا جائز ہے کیوں کہ زیادتی کا اعتبار کرتے ہوئے تانبہ بھی چاندی کے حکم میں ہوگا۔ والله تعالی اعلم
(۲)
اگر انگوٹھی کے گھیراؤ میں کوئی غیر شرعی کھدائی یا ڈزائن نہ ہو تو اس کا پہننا جائز ہے جیسا کہ صحابہ کرام کی انگوٹھیوں کے متعلق منقول ہے کہ ان میں کلمات متعددہ نقش ہوتے تھے۔
رد المحتار میں ہے:’’ونقش خاتم ابي بكر: نعم الله، وعمر: كفى بالموت واعظا، وعثمان: لتصبرن او لتندمن، وعلي: الملك لله، وابي حنيفة: قل الخير والا فاسكت، وابي يوسف: من عمل برأية فقد ندم، ومحمد:من صبر ظفر‘‘۔ (رد المحتار على الدر المختار، ج:٩، ص:٥٢٠ دار عالم الكتب) والله تعالی اعلم
(۳)
جس کو مہر کرنے کی ضرورت نہ ہو اس کے لیے مہر والی انگوٹھی پہننا جائز ہے مگر نہ پہننا افضل ہے، لیکن جس کو مہر کرنے کی حاجت ہو اس کا پہننا صرف جائز ہی نہیں بلکہ سنت ہے جیسے سلطان و قاضی اور وہ علما جو فتوی پر مہر لگاتے ہیں۔
اعلی حضرت امام احمد رضا رضا علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں:’’مہر کے لیے چاندی کی انگوٹھی ایک مثقال یعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم کی جسے مہر کی ضرورت ہوتی ہو بے شبہہ مسنون اور سونے کی یا ایک مثقال سے زیادہ چاندی کی حرام، اور پورے مثقال بھر میں روایتیں مختلف اور حدیث سے صریح ممانعت ثابت تو اسی پر عمل چاہیے اور بے ضرورت مہر ایسی انگشتری پہننا مکروہ تنزیہی یعنی بہتر یہ کہ بچے اور یہ اس صورت میں ہے جب کہ اس کی ہیئت انگشتری زنانہ سے جدا ہو ورنہ محض ناجائز، جیسے ایک سے زیادہ نگ ہونا کہ یہ صورت عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے‘‘۔(فتاوی رضویہ قدیم، ج:٩، ص:١٤، رضا اکیڈمی)
بہار شریعت میں ہے:‘‘انگوٹھی انہیں کے لیے مسنون ہے جن کو مہر کرنے کی حاجت ہوتی ہے جیسے سلطان و قاضی اور علما جو فتوی پر مہر کرتے ہیں، ان کے سوا دوسروں کے لیے جن کو مہر کرنے کی حاجت نہ ہو مسنون نہیں، مگر پہننا جائز ہے’’۔(بہار شریعت حصہ:١٦، ج:٣، ص:٤٢٧ مکتبۃ المدينہ)
اور اگر پتھر پر کوئی غیر شرعی نشان(سمبل) یا نام نقش نہ ہو تو اس کے پہننے میں کوئج حرج نہیں۔
بہار شریعت میں ہے:’’انگوٹھی سے مراد حلقہ ہے نگینہ نہیں، نگینہ ہر قسم کے پتھر کا ہوسکتا ہے عقیق، یاقوت، زمرد، فیروزہ وغیرہا سب کا نگینہ جائز ہے‘‘۔(بہار شریعت ج:٣، ص:٤٢٦ مکتبۃ المدینہ)
اسی میں ہے:’’انگوٹھی پر اپنا نام کندہ کرا سکتا ہے، نگینہ پر انسان یا کسی جانور کی تصویر کندہ نہ کرائے‘‘۔ (مرجع سابق ص:٤٢٧) والله تعالی اعلم