عنوان:دیوبندی اور اہل حدیث کا حکم

اس مسئلہ کے بارے میں علمائے حق اہل سنت و جماعت (حنفی بریلوی) کیا فرماتے ہیں؟
ستیانہ اڈا میں مین جامع مسجد اہل سنت و جماعت (حنفی بریلوی) کی ہے ، علاقہ میں ہر مسلک کا شخص اکثریت میں موجود ہے اور علاقہ میں غمی و خوشی کا ہونا ہر مسلک کے افراد سے تعلق رکھتا ہے۔
(۱)
اگر کوئی دیوبندی یا اہلحدیث فوت ہو جائے تو کیا اہل سنت و جماعت کی مسجد میں ان کی فوتیدگی کا اعلان کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
(۲)
کیا کوئی دیوبندی یا اہلحدیث، اہل سنت و جماعت (حنفی بریلوی) کے کسی شخص کو سلام کرے تو کیا اس کا جواب دینا چاہیے؟
(۳)
کیا کسی دیوبندی یا اہلحدیث اشخاص سے معاشرتی تعلق رکھا جا سکتا ہے یا نہیں؟
(۴)
کیا کسی دیوبندی یا اہلحدیث فرد کی غمی یا خوشی میں اہل سنت و جماعت (حنفی بریلوی)شامل ہو سکتا ہے؟
(۵)
کیا کوئی ایسا شخص خواہ وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو، فرقہ واریت پھیلا کر فساد کروانے کا سبب بنے تو اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جا سکتی ہے؟
(۶)
کیا کوئی شخص اہل سنت و جماعت (حنفی بریلوی)کسی دوسرے مسلک (دیوبندی یا اہلحدیث) کے اشخاص کے ساتھ گائے یا اونٹ کی قربانی میں حصہ ڈال سکتا ہے یا نہیں؟
(۷)
کیا دعا یا ایصال ثواب صرف اہل سنت و جماعت (حنفی بریلوی)کے لیے مخصوص ہے یا کی تمام امت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم(جس میں مسلک کی قید نہ ہو)کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے؟جلد اور مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

المستفتی:سید عابد حسین شاہ، ستیانہ بنگلہ ضلع فیصل آباد، پاکستان

باسمه تعالٰی والصلاة و السلام علی رسوله الأعلی

الجواب:دیوبندی وہابی اپنے عقائد کفریہ خبیثہ کے سبب بحکم علمائے حرمین شریفین، مصر و شام و ہند وسندھ کافرو مرتد اور دین اسلام سے خارج ہیں۔سب سے پہلے تو آپ یہ سمجھیں کہ دیوبندی اور اہل حدیث کہتے کس کو ہیں؟
وہابی مذہب کی بنیاد کفر پر ہے وہ بھی کفر کی سب سے بد ترین قسم انبیائے کرام خصوصاً سید الانبیا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی توہین کی وجہ سے وہابی بلا شبہ کافرو مرتد اور خارج از اسلام ہیں۔
وہابی دیوبندی سے عام ہے ان کی مختلف شاخیں ہیں ایک شاخ دیوبندی بھی ہے، وہابی در اصل محمدبن عبدالوہاب نجدی کے متبعین کو کہتے ہیں، اس مذہب کو غیر منقسم ہندمیں لانے والے مولوی اسمٰعیل دہلوی ہیں، اب یہاں مولوی اسمٰعیل دہلوی کے ماننے والوں کو وہابی کہا جاتا ہے، وہابی مذہب کی مختلف شاخیں ہیںدیوبندی، غیر مقلد، مودودی وغیرہ ان شاخوں کے مابین کچھ اختلافات ہیں مگر عقائد میں سب متفق ہیں یہ سب کے سب مولوی اسمٰعیل دہلوی کو اپنا امام اور پیشوا مان کر اس کی لکھی ہوئی کتابوں کو اپنے مذہب کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔
تقویت الایمان کی عبارات
مولوی اسمٰعیل دہلوی کے عقائد نظریات جو اس کی کتابوں میں لکھے ہیں ان میں سے بعض نقل کیے جاتے ہیں:’’ اور یہ یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے۔(تقویۃ الایمان، ص:۱۲، کتب خانہ رحیمیہ، دیوبند)
اسی میں ہے: ’’سب انبیا و اولیا اس کے رو برو ذرۂ ناچیز سے بھی کمتر ہیں۔(تقویۃ الایمان، ص:۴۶، کتب خانہ رحیمیہ، دیوبند)
اسی میں ہے: ’’دوسرے یہ کہ ہمارا جب رب و خالق اللہ ہی ہے اور اسی نے ہم کو پیدا کیا تو ہم کو بھی چاہیے کہ اپنے کاموں پر اسی کو پکاریں اور کسی سے ہم کو کیا کام کہ اس کو منائیں جیسے جب کوئی ایک بادشاہ کا غلام ہوچکا تو وہ تو اپنے ہر کام کا علاقہ اسی سے رکھتا ہے دوسرے بادشاہ سے بھی نہیں رکھتا اور کسی چوڑھے چمار کا کیا ذکر۔(تقویۃ الایمان، ص:۱۵، کتب خانہ رحیمیہ، دیوبند)
اسی میں ہے: ’’ جو ان کاموں کا مختار ہے اس کا نام اللہ ہے محمد یا علی نہیں اور جن کا نام محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )یا علی ہے وہ کسی کام کے مختار نہیں۔(تقویۃ الایمان، ص:۳۴، کتب خانہ رحیمیہ، دیوبند)
اسی میں ہے: ’’یعنی انسان آپس میں سب بھائی ہیں جو بڑا بزرگ ہو وہ بڑا بھائی ہے سوا اس کی بڑے بھائی کی سی تعظیم کیجیے۔(تقویۃ الایمان، ص:۵۰، کتب خانہ رحیمیہ، دیوبند)
اسی میں ہے: ’’ ہرکسی بزرگ کی تعریف میں زبان سنبھال کر بولوجو بشر کی سی تعریف ہو سووہی کرو بلکہ اس میں بھی اختصار کرو۔(تقویۃ الایمان، ص:۵۲، کتب خانہ رحیمیہ، دیوبند)
اسی میں ہے: ’’یعنی اللہ کے سوا جو اور لوگوں کو پکارتے ہیں سو اپنے خیال میں عورتوں کا تصور باندھتے ،ہیں پھر کوئی حضرت بی بی نام ٹھہرالیتا ہے، کوئی بی بی آسیہ، کوئی اُتاؤلی، کوئی لال پری، کوئی سیاہ پری، کوئی ستیلا اور سانے، کوئی کالی۔ ‘‘ (تقویۃ الایمان، ص:۳۸، کتب خانہ رحیمیہ، دیوبند)
اور اس کے سوابہت کلمات قبیحہ سے کہ ذکر ان کا موجب تطویل ہے اور مسلمان کو زبان پر لانا ثقیل اعراض کیاجاتا ہے ؎
اند کے پیش نوگفتم غم دل ترسیدم
کہ دل آزردہ شوی ور نہ سخن بسیارست
[تھوڑی سی باتیں آپ کے سامنے کر دی ڈرتا ہوں کہ تمہارا دل رنجیدہ ہو جائے گا ورنہ باتیں تو بہت ہیں۔]
صراط مستقیم کی عبارات
صراط مستقیم میں ہے:’’صرف ہمت بسوئے شیخ و امثال آں از معظمین گو جناب رسالت مآب باشند بچندیں مرتبہ بدتر از استغراق در صورت گاؤ و خر خود ست‘‘۔(صراط مستقیم، فارسی، ص:۸۶، المکتبۃ السلفیۃ، شیش محل روڈ، لاہور)
ترجمہ:نماز میں اپنے شیخ یا بزرگوں میں سے کسی دوسرے بزرگ حتّٰی کہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف توجہ صرف کرنا اپنے گدھے اور بیل کے خیال میں مستغرق ہو جانے سے کئی درجہ بدتر ہے۔
اپنے شیخ سید احمد رائے بریلوی کی شان میں کیا سے کیا لکھ مارا وہ بھی ملاحظہ فرمائیے:’’ از بسکہ نفس عالی حضرت ایشاں بر کمال مشابہت جناب رسالت مآب علیہ افضل الصلوٰت والتسلیمات در بدو فطرت مخلوق شدہ بناء علیہ لوح فطرت ایشاں از نقوش علوم رسمیہ وراہ دانشمنداں کلام و تحریر وتقریر مصفیٰ ماندہ بود۔‘‘(صراط مستقیم، خطبۃ الکتاب، ص:۴، المکتبۃ السلفیۃ لاہور)
ترجمہ:چنانچہ ان حضرات کی عالی ذات کو جناب رسالت مآب علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیمات کے ساتھ ابتدائً فطرت میں کامل مشابہت دے کر پیدا کیا گیا اسی بنا پر ان حضرات کی لوح فطرت رسمی علوم اور علما کی راہ کلام و تحریر و تقریر سے مصفی رہی تھی۔
اسی میں ہے:’’ بسبب برکت بیعت ویمن تو جہات آںجناب ہدایت مآب روح مقدس جناب حضرت غوث الثقلین وجناب حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند متوجہ حال حضرت ایشاں گردیدہ و تاقریب یک ماہ فی الجملہ تنازعے درما بین روحین مقدسین درحق حضرت ایشاں ماندہ زیراکہ ہر واحد ازیں ہر دو امام تقاضائے جذب حضرت ایشاں بتمامہ بسوے خود می فرمود تا ایں کہ بعد انقراض زمانہ تنازع ووقوع مصالحت بر شرکت روزی ہر دو روح مقدس بر حضرت ایشاں جلوہ گرشدند وتاقریب یک پاس ہردو امام بر نفس نفیس حضرت ایشاں توجہ قوی و تاثیر زور آور می فرمودند تاایں کہ درہمان یکپاس حصول نسبت ہر دو طریقہ نصیبۂ حضرت ایشاں گردید۔‘‘(صراط مستقیم، ص:۱۶۶، المکتبۃ السلفیۃ لاہور)
ترجمہ:بیعت کی برکت سے حضرت غوث الثقلین اور حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبندی کی روحیں حضرت کے حال پر متوجہ ہوئیں اور قریب ایک ماہ تک دونوں مقدس روحوں کے درمیان حضرت کے حق میں تنازع رہا اس لیے دونوں اماموں میں سے ہر ایک حضرت کو پورے طور سے اپنی طرف کھینچنے کا تقاضا کر رہے تھے یہاں تک کہ زمانہ تنازع کے ختم ہونے اور شرکت پر مصالحت واقع ہوجانے کے بعد ایک دن دونوں مقدس روحیں حضرت پر جلوہ گر ہوئیں ایک پہر کے قریب دونوں امام حضرت کے نفس نفیس پر قوی توجہ اور پر زور تاثیر ڈالتے رہے یہاں تک کہ اسی ایک پہر کے اندر دونوں طریقتوں کی نسبت حضرت کو نصیب ہوگئی۔
اسی میں ہے:’’ بعد مرور مدتے ازیں واقعہ روزے در مسجد اکبرآبادی واقعہ بلدۂ دہلی حرسہا اللہ تعالیٰ عن آفات الزمان در جماعت از مستفید اں خود نشستہ بودند چنانچہ کاتب الحروف ہم در سلک عتبہ بوسان آں محفل ہدایت منزل منسلک بود وہمہ حضاران محفل سر بجیب مراقبہ فرد بردہ بودند وحضرت ایشاں برہمہ مستفیداں توجہ می فرمودند بعد انقراض آں مجلس ملائک مانس بکاتب الحروف متوجہ شدہ فرمودند کہ امروز حق جل وعلا بمحض عنایت خود بلا توسط احدی اختتام نسبت چشتیہ بما ارزانی داشت۔‘‘(صراط مستقیم، باب چہارم در بیان طریق سلوک راہ نبوت، ص:۱۶۶، المکتبۃ السلفیۃ لاہور)
ترجمہ:پھر اس واقعہ سے ایک مدت گزرنے کے بعد مسجد اکبرآبادی واقع شہر دہلی اللہ تعالیٰ اس شہر کو زمانے کی آفتوں سے محفوظ فرمائے آپ اپنے مستفیدوں کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے چنانچہ کاتب الحروف بھی اس محفل ہدایت منزل کے آستاں بوسوں کی صف میں شامل تھا اور سب حاضرین مجلس مراقبہ کی وجہ سے گریباں میں سر ڈالے ہوئے تھے اور آپ تمام مستفیدوں پر توجہ فرما رہے تھے، اس مجلس کے اختتام کے بعد راقم الحروف کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا آج حق جل و علیٰ نے محض اپنی عنایت سے بلا واسطہ کسی کے نسبت چشتیہ کا اختتام ہمیں ارزانی کیا ہے۔
اسی میں ہے:’’ روزی حضرت جل وعلا دست راست حضرت ایشاں را بدست قدرت خاص خود گرفتہ و چیز مرا از امور قدسیہ کہ بس رفیع و بدیع بود پیش روی حضرت ایشاں کردہ فرمود کہ ترا ایں چنیں دادہ ام و چیزہا ئے دیگر خواہم داد۔‘‘(صراط مستقیم، باب چہارم در بیان طریق سلوک راہ نبوت، ص:۱۶۴، المکتبۃ السلفیۃ لاہور)
ترجمہ:یہاں تک کہ ایک روز ان (دہلوی کے پیر) کا دایاں اللہ نے اپنے خاص دست قدرت میں پکڑا اور امور قدسیہ کی بلند و بالا چیز کو ان کے سامنے پیش کرکے فرمایا کہ تجھے میں نے یہ چیز دے دی اور مزید چیزیں دوں گا۔
ای میں ہے:’’شخصے بجناب حضرت ایشاں استدعائے بیعت نمود حضرت در آں ایام علی العموم اخذ بیعت نمی کردند بناء علیہ ملتمس آں شخص را ہم قبول نفرمودند آں شخص بیش از بیش الحاح کردہ حضرت ایشاں بآں شخص فرمودند کہ یک دو روز توقف باید کرد بعد ازاں ہرچہ مناسب وقت خواہد شد ہماں بعمل خواہد آمد باز حضرت ایشاں بنا بر استفسار و استیذان بجناب حضرت حق متوجہ شدند و عرض نمودند کہ بندہ از بندگان تو استدعا می کند کہ بیعت بمن نماید و تودست مراگر فتد وہر کہ دریں عالم دست کسے را می گیرد پاس دستگیرے ہمیشہ می کند واوصاف ترا باخلاق مخلوقات ہیچ نسبتے نیست پس در آں معاملہ چہ منظور ست ازاں طرف حکم شد کہ ہر کہ بردست تو بیعت خواہد کرد گول کوکہا باشند ہر یک را کفایت خواہم کرد ‘‘۔(صراط مستقیم، باب چہارم در بیان طریق سلوک راہ نبوت، ص:۱۶۵، المکتبۃ السلفیۃ لاہور)
ترجمہ:یہاں تک کہ ایک شخص نے آپ کے پاس حاضر ہو کر بیعت کی درخواست کی اور چوں کہ آپ ان ایام میں علی العموم بیعت نہیں لیا کرتے تھے، اس لیے اس شخص کی درخواست کو قبول نہ فرمایا، جب اس شخص نے نہایت الحاح اور اصرار کیا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ ایک دو روز توقف کرنا چاہیے بعد ازاں جو کچھ مناسب وقت ہوگا اس پر عمل کیا جائے گا، پھر آپ اجازت اور استفسار کے لیے جناب حق میں متوجہ ہوئے اور عرض کیا کہ بندگان درگاہ سے ایک بندہ اس امر کی درخواست کرتا ہے کہ مجھ سے بیعت کرے اور تو میرا ہاتھ پکڑے ہوئے ہے اور اس جہاں میں جو کوئی کسی کا ہاتھ پکڑتا ہے ہمیشہ دست گیری کی پاس کرتا ہے اور حضرت حق کے اوصاف کو اخلاق مخلوقات کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں، پس اس معاملہ میں کیا منظور ہے؟ اس طرف سے حکم ہواکہ جو شخص تیرے ہاتھ پر بیعت کرے گا اگرچہ وہ لکھو کھا ہی کیوں نہ ہوں ہم ہر ایک کو کفایت کریں گے
اور ابھی اس قسم کے کلمات اس کتاب میں باقی ہیں مگر نمونہ کے لئے اسی قدر کافی ہیں ؎
در بند آں مباش کہ مضمون نماندہ است
صد سال می تواں سخن از زلف ہار گفت
[اس کو روکنے کے درپے مت ہو کہ جس کا مطلوب باقی ہے سوسال تک لگے بات کو محبوب کی چوٹی کہنے کے لیے]
دیکھو’’ تقویۃ الایمان‘‘ میں جناب احدیت کو انبیا واولیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کے باب میں صرف قہار مطلق قرار دیا کہ نہ کوئی خوف کے مارے اس کے سامنے بات کرسکتاہے، نہ اسے کسی کی خاطرداری، نہ اس کے دربار میں کسی کو عزت و وجاہت، بلکہ سب اس کے آگے چمار سے زیادہ ذلیل اور ذرّۂ ناچیز سے بھی کمتر ہیں اور غلامی سے زیادہ کوئی رتبہ نہیں رکھتا۔
وہی خدا کہ سید احمد کے ساتھ کس لطف وکرم سے پیش آتا ہے اور ہاتھ میں ہاتھ پکڑکے بے تکلفی کی ملاقات اور صلاح ومشورہ اور ان کے مریدوں کے حق میں اپنی کفالت کا وعدہ کرتاہے اور تحفہ عالم قدس کا نذر و پیش کش کرتاہے۔
سچ تو یہ ہے کہ مصنف کو اپنی اوپچ کا مزہ مقدم ہے جب خداکی عظمت اور بڑائی لکھتے ہیں تو انبیا و اولیا کی اہانت میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے اور جب پیر جیو کی عظمت بیان ہوتی ہے تو جناب احدیت کی عظمت اور بڑائی کا اصلا خیال نہیں رکھتے یابآں شور اشوری یا بایں بے نمکی ؎
گہ بت شکنی گاہ بمسجد زنی آتش
از مذہب تو گبر ومسلمان گلہ دارد
[کہیں بت توڑتا ہے اور کہیں مسجد کو نذر آتش کرتا ہے مسلمان اور پارسی تیرے مذہب سے شکوہ کناں ہیں]
علمائے دیوبندکی وہ گستاخانہ عبارات جن کی وجہ سے علمائے حرمین شریفین وعلمائے ہندوستان نے ان کوکافرقرار دیاتھا، پیش کی جارہی ہیں تاکہ اس دیوبندیوں کی حقیقت سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔
دیوبندی مذہب کے امام مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی نے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کوعوام کا خیال قراردیتے ہوئے لکھا :’’عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایںمعنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تأخر زمانی میںبالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام ِمدح میں وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے‘‘۔(تحذیر الناس صفحہ4، 5 مطبوعہ دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی، ایضاً صفحہ41 ادارہ العزیز، نزد جامع مسجد صدیقیہ، گلہ برف خانہ ،سیالکوٹ روڈ، کھوکھرکی، گوجرانوالہ)
مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی کی دوسری عبارت ملاحظہ کریں جس میں حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانے میں کسی نبی کے وجود کو ختم نبوت کے منافی نہ قرار دیتے ہوئے لکھا:’’اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونابدستور باقی رہتا ہے‘‘۔(تحذیر الناس صفحہ18، مطبوعہ دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی، ایضاً صفحہ65، ادارہ العزیز، نزد جامع مسجد صدیقیہ، گلہ برف خانہ سیالکوٹ روڈ ،کھوکھر کی ،گوجرانوالہ)
مولوی قاسم نانوتوی دیوبندی نے یہاں تک لکھ دیا کہ اگرحضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعدبھی کوئی نبی پیداہوتوآپ کے آخری نبی ہونے میں کوئی فرق نہ آئے گا،عبارت ملاحظہ کیجیے:’’بلکہ اگر بالفرض بعد زمانۂ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت ِمحمدی میںکچھ فرق نہ آئے گا‘‘۔(تحذیر الناس صفحہ۳۴ مطبوعہ دارالاشاعت،اردو بازار،کراچی۔ایضاً صفحہ۸۵مطبوعہ ادارہ العزیز،نزد جامع مسجد صدیقیہ، گلہ بر ف خانہ،سیالکوٹ روڈ،کھوکھر کی،گوجرانوالہ)نانوتوی صاحب کی یہ تینوں عبارات اپنی جگہ مستقل کفرہیں۔
مولوی خلیل احمد انبیٹھوی دیوبندی اور مولوی رشید احمد گنگوہی نے’’براہین قاطعہ‘‘ میں لکھا کہ شیطان و مَلَکُ الموت کے لیے علم کا وسیع و زائد ہونا تو نص یعنی آیتِ قرآنی اور حدیثِ نبوی سے ثابت ہے لیکن رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہ وسلم کے لیے علم کا وسیع و زائد ہونا کسی نص یعنی کسی آیت، کسی حدیث سے ثابت نہیں بلکہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہ وسلمکے لیے علم کا وسیع ہونا نصوصِ قطعیہ کے خلاف اور شرک ہے،عبارت ملاحظہ کیجیے:’’شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیطِ زمین کا فخرِعالم کو خلاف نصوصِ قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس ِفاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعت ِعلم کی کونسی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کر کے ایک شرک ثابت کرتا ہے‘‘۔(براہین قاطعہ صفحہ55مطبوعہ دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی) مولوی عبدالرؤف جگن پوری دیوبندی نے بھی’’ براہینِ قاطعہ‘‘ کی عبارت کی توضیح کرتے ہوئے لکھا ہے :’’ ملک الموت اور شیطان مردود کا ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا نص ِقطعی سے ثابت ہے۔ اور محفل ِمیلاد میں جناب خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا تشریف لانا نصِ قطعی سے ثابت نہیںہے‘‘۔ (براۃالابرار صفحہ57، مطبوعہ مدینہ برقی پریس بجنور۔ ایضاً صفحہ57، مطبوعہ تحفظ ِنظریاتِ دیوبند، اکادمی پاکستان۔ اگست 2012ء )یعنی دیوبندی مذہب کے مطابق حضرت مَلَک الموت اور شیطان مردود نصِ قطعی سے اللہ کے شریک ہیں۔ (نعوذ باللّٰہ من ذالک)
مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی نے پہلے مولوی اسماعیل دہلوی کی اتباع کرتے ہوئے مسئلہ امکانِ کذب اپنایاپھر اس کے بعد مزید پیش قدمی کرتے ہوئے اپنے ایک فتوی لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:’’ جو اللہ تعالیٰ کو کاذِب بالفعل کہے اسے گمراہ و فاسق نہ کہا جائے کیونکہ پہلے ائمہ کا بھی یہی مذہب تھا اس شخص سے فقط تاویل میں غلطی ہوئی ہے‘‘ یعنی نعوذ باللّٰہ اللہ تعالیٰ کے لیے وقوعِ کذب کا عقیدہ گڑھا اور جھوٹ بولتے ہوئے پچھلے ائمہ پر تھوپ دیا۔مولوی رشید گنگوہی دیوبندی کی زندگی میں اس فتوے کا رد ہوا لیکن جناب نے اپنے اس فتوے سے انکار نہیں کیا ۔(گنگوہی صاحب کے اس قلمی فتوے کا عکس قدیم علماء اہل سنت کے پاس موجود تھا،مولانا غلام مہر علی گولڑوی نے ۱۹۵۶ء؁ میں شائع ہونے والی اپنی کتاب’’دیوبندی مذہب کا علمی محاسبہ‘‘ مطبوعہ کتب خانہ مہریہ،مسجد نُور،منڈی چشتیاں شریف،پاکستان میںگنگوہی کے اس قلمی فتوی کا عکس صفحہ ۳۲۶ کے ساتھ شائع کیا۔ بعد میں لاہور سے ’’مکتبہ حامدیہ‘‘ اور’’ ضیاء القرآن‘‘ کی طرف سے ’’دیوبندی مذہب‘‘کے شائع ہونے والے ایڈیشنوں میں اس فتویٰ کا عکس واضح شائع نہیں ہو سکا ۔محترم میثم عباس قادری رضوی لاہوری کے پاس ’’دیوبندی مذہب ‘‘ کایہ قدیم نسخہ موجود ہے۔)
مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی نے اپنی کتاب’’حفظ الایمان‘‘میں حضورصلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی شدید گستاخی کرتے ہوئے آپ کے علم غیب کو بچوں، پاگلوں اورجانوروں کے علم سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھا:’’آپ کی ذاتِ مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقولِ زید صحیح ہو تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی کیا تخصیص ہے ایسا علم غیب تو زید و عمر و بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے بھی حاصل ہے‘‘(حفظ الایمان صفحہ ۸، مطبوعہ مطبع علیمی، دہلی ۔ ایضاً صفحہ۱۳ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ، کراچی۔ ایضاً صفحہ ۱۳ مطبوعہ کتب خانہ مجیدیہ، ملتان)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سُنّت مجددِ دین وملت مولانامفتی الشاہ احمد رضا خاں قادری برکاتی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے اکابرِ دیوبند کی کتب’’تحذیرالناس‘‘،’’براہینِ قاطعہ‘‘،’’حفظ الایمان‘‘ اورفتوی وقوعِ کذب ( کفریہ عبارات کی تعریب کے ساتھ) علمائے حرمین شریفین کی خدمت میں پیش کیا۔ علمائے حرمین شریفین نے ان گستاخانہ عبارات کو ملاحظہ کرنے کے بعد اپنے فتاویٰ میں دیوبندی اکابر کوکافرقراردے دیا۔یہ فتاویٰ ملاحظہ کرنے کے لیے ’’حُسَّامُ الْحَرمَیْن عَلٰی مَنْحر الْکُفْر وَالْمَیْن‘‘کامطالعہ کریں۔بعدازاں امام المناظرین فاتح مذاہبِ باطلہ شیر بیشۂ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد حشمت علی خان لکھنوی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے متحدہ ہندوستان کے علماء کی بارگاہ میںتکفیرِ دیوبندیہ کے متعلق استفتاء پیش کرکے’’حُسَّامُ الْحَرمَیْن عَلٰی مَنْحر الْکُفْر وَالْمَیْن‘‘ کے لیے تصدیقات حاصل کیں۔
دیوبندیوں اور وہابیوں کی فکری ہم آہنگی
غیر مقلد وہابی اور مقلد وہابی (یعنی دیوبندی )فرقوں کی ہندوستان میں پیدائش مولوی اسماعیل دہلوی صاحب کے بطن سے ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں فرقوں کے درمیان بہت زیادہ فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے،اس کے دلائل ملاحظہ کریں ۔
غیر مقلدین کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :’’عقائد میں سب متحد مقلد غیر مقلدہیں البتہ اعمال میں مختلف ہوتے ہیں۔‘‘(فتاویٰ رشیدیہ صفحہ62، محمد علی کارخانہ اسلامی کتب ،اردو بازار، کراچی، ایضاًصفحہ92، مطبوعہ دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی ایضاً، صفحہ77 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ ،غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور، ایضاً، صفحہ185 محمد سعید اینڈ سنز تاجرانِ کتب، قرآن محل مقابل مولوی مسافر خانہ، کراچی، ایضاً صفحہ10، حصہ دوم، مطبوعہ میر محمد کتب خانہ، آرام باغ، کراچی، ایضاً صفحہ208 مشمولہ تالیفات رشیدیہ ،مطبوعہ ادارہ اسلامیات، 190، انارکلی، لاہور)
مولوی سمیع الحق دیوبندی مہتمم جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک،پاکستان سے اٹلی کی ایک صحافیہ نے انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا :’’س:دیوبندیوں اور وہابیوں میں کیا فرق ہے؟ج:دیوبندی اور وہابی قریب قریب ہیںیہ جو خرافات ہیں لوگوں نے دین میں شامل کر دی ہیں بت پرستی اور قبر پرستی شرک اور بدعات کے یہ لوگ خلاف ہیں‘‘(صلیبی دہشت گردی اور عالمِ اسلام ،طالبان افغانستان کے تناظر میں صفحہ۱۴۳ مطبوعہ مُوتِمُ الْمُصَنِّفِیْن،دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،پاکستان۔طبع دوم محرم الحرام ۱۴۲۶ھ/فروری ۲۰۰۵ء)
مولوی سمیع الحق دیوبندی صاحب نے دیوبندیہ کو وہابیہ کے قریب قرار دیا ہے اور نام لیے بغیر اہلِ سنت کو بت پرست قبر پرست مشرک اور بدعتی قرار دیا ہے۔
علماء دیوبند کی طرف سے غیر مقلدین سے اظہار یک جہتی قارئین نے ملاحظہ کر لی اب غیر مقلد وہابی حضرات کی دیوبندی حضرات سے یک جہتی ملاحظہ کریں۔
غیر مقلدین کے مزعومہ شیخ الاسلام مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب غیر مقلد وہابی اور گلابی وہابی (یعنی دیوبندی )کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ان دونوں شاخوں کا مخرج ایک ہی تھا۔‘‘(فتاویٰ ثنائیہ جلداول صفحہ415، باب اول، عقائد و مہماتِ دین مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ، 7۔ ایبک روڈ لاہور)امرتسری صاحب مزید لکھتے ہیں :’’سوائے مسئلہ تقلید کے تردید رسومِ شرکیہ میں دونوں شاخیں ایک دوسرے کے موافق اور مؤید ہیں‘‘۔
(فتاویٰ ثنائیہ جلداول صفحہ415، باب اول، عقائد و مہماتِ دین مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ، 7۔ ایبک روڈ لاہور)
اسی فکری ہم آہنگی کی وجہ سے اہلِ سنت وجماعت اور دیوبندی حضرات کے درمیان ہونے والے مناظروں میں مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب دیوبندی فرقہ کے ساتھ رہے ملاحظہ ہو۔(سیرت ثنائی، صفحہ411، 412 مطبوعہ نعمانی کتب خانہ، حق سٹریٹ ،اردو بازار، لاہور۔ ایضاً، صفحہ 411، 412 مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ، غزنی سٹریٹ ،اردو بازار، لاہور)
حضرت علامہ مولانا ابو الحسنا ت قادری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ (سابق خطیب مسجد وزیر خان ،لاہور)لاہور کے اس مشہور مناظرہ میں مولوی ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد کے دیوبندیوں کی طرف سے مناظرہ کے لیے آنے کا منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’دیوبندی اور وہابی درحقیقت ایک ہی ہیں بظاہر جنگ زرگری رکھتے ہیں اندرونی صورت میں ایک اور مِلے جلے ہیں چنانچہ لاہور میں فیصلہ کن مناظرہ پر جب مولوی منظور سنبھلی کمزور پڑتے دیکھے اور شرائط طے نہ کر سکے تو مولوی احمد علی شیرانوالی کی جماعت نے فوراً ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری کو بُلا لیا جس سے اہلِ لاہور پر اظہر من الشمس ہو گیا کہ دیوبندی اور غیر مقلد درحقیقت ایک ہیں اُسی وقت چاروں طرف سے لعن طعن شروع ہو گئی تھی‘‘(ایمان وکفرانسان صفحہ ۲۶ مطبوعہ بزم تنظیم شعبہ اشاعت مرکزی انجمن حزب الاحناف ہند،لاہور)
مولوی اسماعیل سلفی غیر مقلد صاحب کے فرزند مولوی حکیم محمود احمد صاحب بھی علمائے دیوبند کو اپنا ہم عقیدہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ہم اور دیوبندی ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں‘‘۔(علمائے دیوبند کا ماضی، تاریخ کے آئینے میں صفحہ۱۱ مطبوعہ ادارہ نشر التوحید والسنہ،لاہور )
اس اقتباس کے بعد حکیم صاحب غیر مقلدین اور دیوبندیہ کے بہتر مستقبل کو ان دونوں مسالک کے اتحاد پر موقوف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :’’عقائد میں بھی کوئی ایسا بُعد نہیں رہا بلکہ ہمارا اور اس مسلک کا مستقبل بھی دونوں کے اتحاد پر موقوف ہے‘‘(علمائے دیوبند کا ماضی، تاریخ کے آئینے میں صفحہ۱۱ مطبوعہ ادارہ نشر التوحید والسنہ،لاہور )
ایک اور مقام پر دیوبندیوںسے اتحاد و یگانگت بیان کرتے ہوئے حکیم صاحب لکھتے ہیں :’’دیوبندی اہلِ حدیث تعلقات بہت اچھے ہیں اہلِ توحید ہونے کے ناطے سے ہم دیوبندی حضرات سے خوش دِلانہ رابطہ رکھتے ہیں اور اکثر مسائل میں ہمارا موقف ایک ہوتا ہے جو باہم افہام و تفہیم سے طے کر لیا جاتا ہے‘‘۔(علمائے دیوبند کا ماضی، تاریخ کے آئینے میں صفحہ۱۴مطبوعہ ادارہ نشر التوحید والسنہ،لاہور )
وہابیوںکو ہی اہل حدیث کہتے ہیں
دیوبندی اور وہابی کے متعلق تفصیل جاننے کے بعد اب حقائق کی روشنی میں یہ بھی سمجھ لیجیے کہ وہابیوں کو ہی اہل حدیث کہا جاتا ہے بلکہ گورنمنٹ سے کوشش کرکے لفظ وہابی کو کٹواکر اس کی جگہ اہل حدیث کو استعمال کیا گیا اس متعلق چند شہادتیںاہل حدیث(وہابیوں) کی کتابوں سے ملاحظہ فرمائیں۔
وہابیوںکو ہی اہل حدیث کہتے ہیں اس کا اعتراف ابن سعود کے سوانح نگار سردار محمد حسنی بی-اے نے ان الفاظ میں کیا ہے:’’انیسویں صدی کے ابتدا میں ہندوستان میں وہابیت کی تحریک جاری ہوئی تھی چنانچہ پنجاب میں انگریزوں کی عملداری سے پہلے ایک وہابیوں کی ریاست موجود تھی آج تک ہندوستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دراصل وہابی ہیں مگر انہیں اور نام سے پکارا جاتا ہے مثال کے طور پر اہل حدیث۔‘‘(سوانح حیات سلطان ابن سعود، ص:۲۶۱، ہانڈہ الیکٹرک پریس، جالندھر،۱۹۳۶ء)
وہابیوں کے مناظر و امام ابوالوفامولوی ثناء اللہ امرتسری اس حقیقت کو یوں لکھتے ہیں:’’لہذا عام طلاع کے لیے لکھا جاتا ہے کہ اہلحدیث کو سرکاری دفتروں میں وہابی لکھنے کی ممانعت ہے، ملاحظہ ہو چٹھی گورنر ہند بنام گورنمنٹ پنجاب مؤرخہ ۳؍دسمبر۱۸۸۹ء نمبر۱۷۵۸۔‘‘(اہل حدیث کا مذہب،ص:۱۰۰، دار الکتب السلفیہ))
اہل حدیث(وہابیوں)کے پیشوا مولوی اسمٰعیل پانی پتی لکھتے ہیں:’’مگر جناب مولوی ابوسعید محمد حسین کو وہابی نام ہونا گوارا نہ تھا، انہوں نے گورنمنٹ سے درخواست کی تھی کہ اس فرقے کو جو در حقیقت اہل حدیث ہے اور لوگوں نے از راہ ضد و حقارت کے اس کا نام ’’وہابی‘‘ رکھ دیا ہے، گورنمنٹ اس کو ’’وہابی‘‘ کے نام سے مخطاب نہ کرے۔‘‘(مقالات سر سید، ص:۲۱۰،مجلس ترقی ادب، لاہور)
’’غرض کہ مولوی محمد حسین کی کوشش سے گورنمنٹ نے منظور کر لیا کہ آئندہ سے گورنمنٹ کی تحریرات میں اس فرقہ کو وہابی کے نام سے تعبیر نہ کیا جاوے بلکہ اہل حدیث کے نام سے جس کا نام وہ فرقہ اپنے تئیں مستحق سمجھتا ہے ، موسوم کیا جاوے۔‘‘(مقالات سر سید، حصہ:۹، ص:۲۱۲،مجلس ترقی ادب، لاہور)
(۱)
لاؤڈ اسپیکراگر لوگوں نے چندہ کرکے اس نیت سے لگایا ہو کہ اس سے مسجد کا کام بھی ہوگا اور مسلمانوں کے عام اعلانات بھی تو مسجد کے ایسے لاؤڈ اسپیکر سے سنی مسلمانوں کے میلاد و فاتحہ اور انتقال وغیرہ کے اعلانات میں کوئی ہرج نہیں اور اگر لاؤڈ اسپیکر مسجد کی آمدنی سے خریدا گیا ہے تو اسے کسی دوسری چیز کے اعلان میں صرف نہیں کیا جا سکتا۔
جیسا کہ گذشتہ سطور میں واضح ہو گیا کہ دیوبندیوں اور اہل حدیث اپنے عقائد کفریہ خبیثہ کے سبب کا فرو مرتد اور اسلام سے خارج ہیں لہٰذا ان کی فوتیدگی کا اعلان کسی بھی صورت میں مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے درست نہیں کیوں کہ جب ان کا اعلان ہوگا تو وہ مسجد میں بھی آئیں گے اور سنیوں سے میل ملاپ بھی ہوگا حالاں کہ مرتدین کو مسجد میں آنے کی اجازت دینا جائز نہیں اور سنیوں کا ان سے میل ملاپ رکھنا بھی خوفِ فتنۂ دین کے سبب ممنوع و ناجائز ہے، حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و حمد اللہ و أثنی علیہ ثم قال ان منکم منافقین فمن سمیتہ فلیقم ثم قال قم یا فلاں فانک منافق حتی سمّی ستۃ و ثلٰثین‘‘۔(صاوی، ج:۲، ص:۱۶۶)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا مجھے خوب معلوم ہے کہ تم میں منافقین گھسے ہوتے ہیں جس کا میں نام لوں وہ (مسجد سے) چلا جائے، پھر فرمایا: اے فلاں! اٹھ تو منافق ہے، یہاں تک کہ چھتیس منافقین کا نام لیا(اور انہیں مسجد سے نکالا)
حضرت علامہ عابدین شامی قدس سرہ السامی تحریر فرماتے ہیں:
’’ویمنع عنہ کل موذ ولو بلسانہ۔‘‘(در مختار، ج:۲، ص:۴۳۵، کتاب الصلاۃ، باب یفسد الصلاۃ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
[مسجد سے ہر ایذا دینے والے کو روکا جائے اگرچہ وہ زبان ہی سے ایذا دیتا ہو۔]
لہذا دیوبندیوں اور اہل حدیث کی فوتیدگی کا اعلان مسج سے جائز نہیں۔و اللہ تعالی أعلم
(۲)
دیوبندی ، اہل حدیث مرتدین کے سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے، ان کو سلام کرنا یا ان کے سلام کا جواب دینا جائز نہیں۔و اللہ تعالی أعلم
(۳)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری برکاتی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:’’(معاملہ) ہر کافر سے ہر وقت جائز ہے مگر مرتدین سے۔‘‘(فتاوی رضویہ قدیم، ج:۶، ص:۱۱۰، رضا اکیڈمی، ممبئی،۱۹۹۴ء)
یعنی مرتدین کے معاملہ میں کچھ تفصیل ہے، صاحب ’’ہدایہ‘‘ تحریر فرماتے ہیں:’’اذا ارتد المسلم عن الاسلام و العیاذ باللہ عرض علیہ الاسلام فان کانت لہ شبہۃ کشفت عنہ و یحبس ثلاثۃ أیام فان أسلم فیہا و الا قتل۔‘‘(ہدایۃ، باب أحکام المرتدین، ج:۲، ۴۰۶، دار أحیاء التراث العربی، بیروت)
ترجمہ:جو اسلام سے پھر گیا(مرتد ہوگیا) اس پر اسلام پیش کیا جائے کوئی شبہہ ہو تو دور کیا جائے، نہ مانے تو تین دن تک جیل میں رکھا جائے، اسلام لائے تو خیر ورنہ تین دن کے بعد اس کو قتل کر دیا جائے۔
بحر العلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان اعظمی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:’’تو ایسی صورت میں مرتدین کے ساتھ کسی اسلامی یا غیر اسلامی معاملہ جاری کرنے یا رکھنے کی کون سی صورت ہو سکتی تھی لیکن یہ اس وقت تھا جب اسلام کو سیاسی غلبہ حاصل تھا اور مسلمانوں کی حکومتیذں تھیں، اب اس پر عمل درآمد تقریبا ناممکن ہے، مرتدین دوسروں کی طرح زندگی کے تمام میدانوں میں کام کرنے کے لیے آزاد ہیں اس لیے آج یہ حکم ہے اسلامی بھائی چارگی کے تعلقات اور معاشرتی معاملات ان کے ساتھ ایک لخت ممنوع ہیں، البتہ بیع و شرا اور اجارہ جیسے معاملات میں جس طرح ہم دوسری ترجیحات کا لحاظ کرتے ہیں اسی طرح مذہبی ترجیحات کا لحاظ کریں اور حتی الامکان اپنے مذہبی بھائیوں کے ساتھ معاملات کریں، پھر اصلی کافروں سے بھی کر سکتے ہیں، اگر مجبوری ہو تو مرتدین کے ساتھ بھی اجازت ہے جب کہ یہ معاملات ان کے ساتھ تعلقات کا ذریعہ نہ بنیں۔‘‘(فتاوی بحر العلوم، کتاب السیر، ج:۴، ص:۲۳۷، امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف،۲۰۰۹ء)
مفتی محمد طیب داناپوری قادری قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:’’علمائے اہل سنت دامت برکاتہم بھی فتوی دیتے ہیں کہ مرتدین و مبتدعین کے ساتھ جہاں تک تم سے ہو سکے دنیوی تعلقات بھی نہ رکھو لیکن اگر ایسا کرنے کی تمہیں ضرورت و مجبوری ہے تو تم اس کے بارے میں گنہگار نہیں، البتہ ان دنیوی تعلقات کی بنا پر مرتدین و مبتدعین سے موانست و مودت ہرگز جائز نہیں۔‘‘(تجانب اہل السنہ، ۴۰۷، مدرسہ گلشن رضا، مہاراشٹر،۲۰۰۷ء)
حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:’’و مہما امکن در ہیچ امر بایشاں رجوع نہ باید و اگر فرضا ضرورت افتد در رنگ قضا و حاجت انسانی بکراہت و اضطراب قضائے حاجت بایشاں باید نمود۔‘‘(مکتوبات مجدد الف ثانی، ج:۲، ص:۱۴۹)
ترجمہ:حتی الامکان کسی معاملہ میں ان کی طرف رجوع نہ کریں اور ضرورت و مجبوری ہو تو قضائے حاجت کی طرح بہ کراہت ان سے ضرورت پوری کی جائے۔و اللہ تعالی أعلم
(۴)
ان کی غمی و خوشی وغیرہ کسی بھی موقع پر شرکت جائز نہیں،حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:’’یکون فی آخر الزمان دجّالون کذّابون یاتونکم من الأحادیث بما لم تسمعوا أنتم و لا آباؤکم فایاکم و ایاہم لا یضلونکم و لا یفتنونکم۔‘‘(صحیح المسلم، باب فی الضعفاء و الکذابین و من یرغب عن حدیثہم، ج:۱، ص:۱۲، دار أحیاء التراث العربی، بیروت)
ترجمہ:آخر زمانے میں دجال کذاب لوگ ہوں گے کہ وہ باتیں تمہارے پاس لائیں گے جو نہ تم نے سنیں، نہ تمہارے باپ دادا نے، تو تم ان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور رکھو ، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں، کہیں تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔
حدیث شریف میں ہے:’’فلا تجالسوہم و لا تؤاکلوہم و لا تشاربوہم و لا تناکحوہم و ان مرضوا فلا تعودوہم و ان ماتو فلا تشہدوہم و لا تصلوا علیہم و لا تصلوا معہم۔‘‘(کنز العمال، کتاب الفضائل ذکر الصحابۃ و فضلہم، ج:۱۱، ص:۲۴۱، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
ترجمہ:تم ان کے ساتھ مت بیٹھنا، ان کے ساتھ کھانا نہ کھانا، ان کے ساتھ پانی نہ پینا، ان کے ساتھ شادی بیاہ مت کرنا، وہ بیمار پڑیں تو انہیں پوچھنے کو نہ جانا، مر جائیں تو ان کے جنازے پر نہ جانا، نہ ان پر نماز پڑھنا، نہ ان کے ساتھ نماز پڑھنا۔
حدیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ واضح ہو گیا کہ موت و حیات کے تمام تعلقات ان سے منقطع کرنے کا حکم ہے۔و اللہ تعالی أعلم
(۵)
فرقہ واریت سے آپ کی کیا مراد ہے اس کو واضح کرنا چاہیے؟
اگر فرقہ واریت سے مراد وہ دہشت گردانہ حملے ہیں جو خوارج، دیابنہ و وہابیہ کی جانب سے آئے دن ہوتے رہتے ہیں اس طرح کی فرقہ واریت اسلام میں ہرگز ہر گز جائز نہیں، دہشت گردانہ حملے کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے والے ان نام نہاد مسلمانوں کو قانونی کاروائی کرکے یا کسی اور جائز طریقے سے روکنا ممکن ہو تو فورا ان کے شر کو دفع کرنا چاہیے تاکہ سنی مسلمان ان کے ظلم چبر اور تشدد کی نحوست سے محفوظ رہیں۔
اور اگر آپ انجانے یا غلطی فہمی کے سبب ان لوگوں کو فرقہ واریت پھیلا کر فساد کا سبب سمجھ رہے ہیں جو دیوبندیوں وغیرہ باطل فرقوں کے گمراہ کن عقائد و نظریات کو عوام کے سامنے بیان کرکے ان کا رد کرتے ہیں تو آپ اپنی غلط فہمی کو دور کیجیے اور اچھی طرح سے ذہن نشین کر لیجیے فرقہ واریت پھیلانے والے وہ ہیں جنہوں نے اللہ جل جلالہ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں توہین کی جو ان کا رد کرتے ہیں وہ حق کو ظاہر کرنے والے اور باطل کا رد کرنے والے ہیں اور اس کا حکم تو اللہ تعالیٰ نے دیا بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے حق کو ثابت فرمایا اور باطل کو رد فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے جھوٹے لوگوں کا رد ان لافاظ میں فرمایا:’’وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا بِاللّہِ وَبِالْیَوْمِ الآخِرِ وَمَا ہُم بِمُؤْمِنِیْنَ‘‘۔(البقرۃ۲/۶)
اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی مسجد نبوی شریف سے ان منافقین کو نام بنام پکار کر نکالا جو ظاہر میں تو اسلام کو ظاہر کرتے تھے لیکن ان کا باطن اس کے خلاف تھا۔صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ علیہم اجمعین اور اسلاف کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا بھی یہی معمول رہا ہر ایک کی مثال یہاں پیش کرنے کی گنجائش نہیں۔
حدیث شریف میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ، و ذلک أضعف الایمان۔‘‘ (سنن النسائی، تفاضل اہل الایمان، ج:۲، ص:۲۶۵، المکتبۃ السلفیۃ، لاہور)
ترجمہ:تم میں سے جب کوئی برائی دیکھے تو ہاتھ سے اسے روکنے کی کوشش کرے اور اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے منع کرے اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
دوسری حدیث میں ہے:’’الساکت عن الحق شیطان أخرس۔‘‘ (التفسیر الکاشف، ج:۵، ص:۳۲، مطبوعہ:بیروت)
[حق ظاہر نہ کرنے والا گونگا شیطان ہے۔]
لہذا حق بات کہنے والے مرد مجاہد کو فرقہ واریت پھیلانے والا یا فساد کا سبب سمجھنا حماقت و جہالت ہے اس سے باز آنا ضروری ہے۔و اللہ تعالی أعلم
(۶)
یہ اچھی طرح واضح ہو چکا کہ دیوبندی و اہل حدیث پنے عقائد کفریہ کے سبب مسلمان ہی نہیں ہیں لہذا سنی مسلمانوں کا ان کے ساتھ گائے یا اونٹ وغیرہ کی قربانی میں حصہ لے کر شریک ہونا درست نہیں بلکہ اگر ان سات حصوں میں سے اگر کوئی ایک حصہ بھی مرتدین میں سے کسی کا ہوگا تواس کے ساتھ جانور میں جتنے لوگ بھی شریک ہیں کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی، تنویر الابصار میں ہے:’’ان کان شریک الستۃ أو مرید اللحم لم یجز عن واحد۔‘‘(در مختار، شرح تنویر الأبصار، ج:۲، ص:۲۳۳، مطبع مجتبائی، دہلی)
ترجمہ:اگر قربانی کرنے والے کے ساتھ باقی چھ میں سے کوئی نصرانی یا گوشت کے ارادے سے شریک ہو تو کسی کی بھی قربانی صحیح نہ ہوگی۔و اللہ تعالی أعلم
(۷)
دیوبندی و اہل حدیث اور دیگر کافر و بد دین فرقوں کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کرنااگر یہ ان کے عقائدِ کفریہ پر مطلع ہونے کے بعد ان کو مسلمان سمجھ کر ہو تو ضرور توبہ وتجدید ایمان فرض ہے ۔و اللہ تعالی أعلم

Previous articleذبح میں تین نسیں کٹنے کے بعد مرغی کی گردن توڑنے کا حکم
Next articleنابینا شخص کی امامت کا حکم