فتوی نمبر:787
عنوان: سجدہ پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے قیام کا حکم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص جو صرف سجدے پر قادر نہیں باقی قیام اور رکوع پر قادر ہے ایسے شخص کے لیے یہ حکم دینا کہ آپ اب قیام و رکوع پر قادر ہونے کے باوجود بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں کیا صحیح ہے کیا قیام و رکوع مستقل رکن نہیں جو ان کو سجدے کے تابع بتایا جارہا ہے اعلی حضرت مجدد دین وملت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے اپنے مشہور و مقبول فتاوی فتاوی رضویہ میں کس جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ قیام و رکوع پر قادر ہونے کے باوجود اگر کوئی سجدہ نہ کر سکے تو وہ قیام و رکوع کو چھوڑ دے ؟
- سائل: بندہ محمد عرفان بن محمد انوار احمد نقشبندی مجددی کاکاہیری
- سگ دربار عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کاکا ہیر شریف وڈھ ضلع خضدار بلوچستان
- M.51مقیم مکان نمبر
- مولارام کمپاوُنڈ ملیر سٹی کراچی پاکستان
باسمه تعالٰی والصلاة و السلام علی رسوله الأعلی
الجواب: کتب فقہ کی معتبر و معتمد کتابوں میں روشن تصریح ہے کہ نماز میں چھ فرائض ہیں۔تکبیر تحریمہ،قرات و قیام، رکوع وسجود اور خروج بصنعہ،جن میں سے قرآت وقیام، رکوع وسجود مستقل فرض اور رکن ہیں جب کہ تکبیر تحریمہ اور خروج بصنعہ کو فرائض کے ساتھ رکن و شرط دونوں کہا گیا ہے۔
ہدایہ کی شرح بنایہ میں ابو محمد محمود بن محمد عینی تحریر فرماتے ہیں:’’باب في صفة الصلاة: فرائض الصلاة ستة:(١)(التحريمة) أي أول الفرائض التحريمة.(٢) (والقيام) الفريضة الثانية هي القيام في الصلاة الفرض.(٣)(والقراءة) الفريضة الثالثة قراءة القرآن.(٤)(والركوع) الفريضة الرابعة الركوع. (٥)(والسجود) أي الفريضة الخامسة السجود.(٦)(والقعدة في آخر الصلاة) أي الفريضة السادسة في آخر الصلاة‘‘.(البناية في شرحِ الهداية،ج:٣،ص:١٧٥،دار الفكر، بيروت)
بدائع الصنائع میں علامہ علاء الدین ابو بکر کاسانی حنفی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:’’وأما أركانها فستة: منها: القيام،ومنها: الركوع،ومنها: السجود ،ومنها القراءة، ومنها: القعدة الأخيرة مقدار التشهد عند عامة العلماء،ومنها: الانتقال من ركن إلى ركن لأنه وسيلة إلى الركن فكان في معنى الركن فهذه الستة أركان الصلاة إلا أن الأربعة الأول من الأركان الأصلية دون الباقيتين‘‘۔ اھ-(بدائع الصنائع، كتاب الصلاة،اركانها، ج:١، ص:۲۸۲، ۲۸۳، ۲۹۲، ۲۹۹، ۳۰۰،مطبوعہ:زکریا)
منیہ،فتاوی عالم گیری اور در مختار میں ہے:’’من فرائضها: التحريمة وهي شرط،(ومنها القيام) في فرض وملحق به كنذر وسنة فجر في الأصح (لقادر عليه)،ومنها:القراءة،ومنها الركوع،ومنها السجود،ومنها القعود الأخير والذي يظهر أنه شرط لأنه شرع للخروج ’’كالتحريمة للشروع‘‘۔ اھ-(در المختار مع رد المحتار،کتاب الصلاۃ،باب فی صفة الصلاة،ج:٢،ص:١٢٦،مطبوعہ:زکریا)
کتب فقہ میں جہاں نماز کے فرضوں کا بیان ہے وہاں “أرکان الصلاۃ” وفرائض الصلاۃ” دونوں طرح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جیسا کہ اوپر دلائل میں مذکور ہے جس سے معلوم ہوا کہ فرائض و ارکان ایک ہی ہیں ہاں فرض رکن سے عام ہے جیسا کہ ہدایہ کی شرح بنایہ میں ہے:’’فإن قلت لِمَ لَمْ يقل أركان الصلاة قلت لأن الفرض أعم من الأركان، لأن الفرض يطلق على الركن والشرط‘‘۔اھ-(البناية في شرحِ الهداية،ج:٣،ص:١٧٦،دار الفكر، بيروت)
قیام و رکوع وسجود کے متعلق تو کتب فقہ میں صراحت ہے کہ یہ رکن ہیں جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے: ’’وقد وجد حد الركن وعلامته في القيام، و لوجود حد الركن وعلامته في كل واحد منهما (أى في الركوع و السجود)‘‘ملخصاً۔اھ- (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ،ارکانھا، ج:١،ص:٢٨٣،مطبوعہ:زکریا)
اور قیام و رکوع کو سجدے کا تابع کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ سجدے کے لیے تابع کے ہی حکم میں ہیں بلکہ کتب فقہ میں یہاں تک ہے کہ سجدہ اصل ہے اور باقی تمام ارکان مستقل رکن ہونے کے باوجود اس کے تابع ہیں جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:’’ولأن السجود أصل وسائر الأركان كالتابع له ولهذا السجود معتبر بدون القيام كما في سجدة التلاوة وليس القيام معتبر بدون السجود بل لم يشرع بدونه. فإذا سقط الأصل سقط التابع ضرورة، ولهذا سقط الركوع عمن سقط عنه السجود‘‘-اھ-(بدائع الصنائع،کتاب الصلاۃ،الکلام فی ذکر صلاۃ المریض،ج:١،ص:٢٨٧،مطبوعہ:زکریا)
رد المحتار میں ہے:’’ولنا أن القیام وسلیة إلى السجود للخرور،والسجود أصل لأنه شرع عبادة بلا قيام كسجدة التلاوة.، والقيام لم يشرع عبادة وحده، حتى لو سجد لغير الله تعالى يكفر بخلاف القيام. واذا عجز عن الأصل سقطت الوسيلة كالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة‘‘۔اھ-(رد المحتار مع در المختار،کتاب الصلاۃ، باب صفة الصلاة،ج:٢،ص:١٣٢،مطبوعہ:زکریا)
لہٰذا دلائل سے جب یہ معلوم ہو گیا کہ ارکان و فرائض ایک ہی ہیں اور سجدے کے لیے تمام ارکان تابع کی مانند ہیں تو یہ بھی جان لیں کہ اگر کوئی شخص سجدے پر قادر نہ ہو اور قیام و رکوع دونوں پر قادر ہو یا رکوع وسجود دونوں پر قادر نہ ہو صرف قیام پر قادر ہو تو اس کے لیے حکم شرع ہے کہ بہتر و افضل یہ ہے کہ وہ بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھے جیسا کہ منیہ کی شرح حلبی کبیر میں علامہ ابراہیم حلبی حنفی تحریر فرماتے ہیں:’’(فإن لم يستطع الركوع و السجود) قاعداً أيضاً(أومى برأسه)لهما إيماء ( وجعل السجود أخفض من الركوع ولا يرفع إلى وجهه شيئاً ليسجد عليه)من وسادة أو غيرها ( وإن قدر)المريض (على القيام دون الركوع و السجود) أي كان بحيث لو قام لا يقدر أن يركع ويسجد (لم يلزمه القيام عندنا) بل يجوز أن يومى قاعداً وهو أفضل خلاف لزفر والثلاثة.(وذكر في الذخيرة) أنه (اذا قدر على القيام والركوع دون السجود يعني يقدر ان يقوم وإذا قام يقدر أن يركع ولكن لا يقدر أن يسجد (لم يلزمه القيام وعليه أن يصلي قاعدا بالإيماء) فقوله: لم يلزمه القيام يفهم منه أنه يجوز له الإيماء في كل من القيام، وقوله: وعليه أن يصلي قاعدا يفهم منه أن القعود لازم أنه لا يجوز الإيماء قائما (و)لكن (اكثر المشايخ على أنه) لا يجب عليه الإيماء قاعداً بل (يخير إن شاء صلى قائما بالإيماء وإن شاء صلى قاعدا بالإيماء) لكن الإيماء قاعداً أفضل لقربة من السجود‘‘۔اھ-( حلبی کبیر،ص۲٦١ تا٢٦٦،ملتقطاً مکتبہ در سعادت)
بدائع الصنائع میں ہے:’’فإن عجز عن الركوع و السجود يصلى قاعداً بالإيماء ويجعل السجود أخفض من الركوع‘‘۔اھ-(بدائع الصنائع،ج١،ص:ص:٢٨٤،مطبوعہ:زکریا)
تنویر الابصار اور در مختار میں ہے:’’ومنها:القيام في فرض وملحق به كنذر وسنة فجر في الأصح (لقادر عليه) وعلى السجود، فلو قدر عليه دون السجود ندب إيمائه قاعداً‘‘۔اھ -(در مختار مع رد المحتار،ج:٢،ص:١٣٢،١٣١،مطبوعہ:زکریا)
متن کی عبارت ’’فلو قدر عليه‘‘ کے تحت علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں:’’أي القيام وحده أو مع الركوع كما في المنية‘‘۔ (مرجع سابق)
اسی میں ’’لقادر عليه‘‘ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:’’وقد يسقط مع القدرۃ عليه فيما لو عجز عن السجود‘‘۔اھ۔( رد المحتار مع در المختار، ج:۲،ص:۱۳۲
اور ’’ ندب إيمائه‘‘ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:’’جاز إيمائه قائماً كما في البحر‘‘۔اھ۔(مرجع سابق)
حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:’’اگر قیام پر قادر ہے مگر سجدہ نہیں کر سکتا تو اسے بہتر یہ ہے کہ بیٹھ کر اشارے سے پڑھے اور کھڑے ہو کر بھی پڑھ سکتا ہے‘‘۔(بہار شریعت، حصہ۳،ج:۱،ص:۵۱۰،مکتبۃ المدینہ)
اسی میں ہے:’’کھڑے ہونے سے محض کچھ تکلیف ہونا عذر نہیں ، بلکہ قیام اس وقت ساقط ہوگا کہ کھڑا نہ ہو سکے یا سجدہ نہ کر سکے‘‘۔(مرجع سابق،ص:۵۱۱)
لہٰذا صورت مسئولہ میں جو شخص سجدہ پر قادر نہ ہو اور قیام و رکوع پر قادر ہو یا رکوع وسجود دونوں پر قادر نہ ہو صرف قیام پر قادر ہو تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھے کیوں کہ جو شخص سجدہ نہیں کر سکتا اس سے قیام بھی ساقط ہو جاتا ہے ۔ہاں اگر کھڑے ہو کر اشارے سے نماز پڑھنا چاہتا ہے تو پڑھ سکتا ہے۔
یہ شریعت مطہرہ کا حکم ہے جس کو علما و فقہا نے اپنی کتابوں میں ذکر فرمایا ہے، مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ نے یہ مسئلہ کہاں ذکر کیا ہے تلاش بسیار کے بعد وہاں تک رسائی نہ ہو پائی۔والله تعالی أعلم