عنوان:فاسقِ معلن کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا حکم
کیا فرماتے ہیں علمائے ین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہم انڈین آرمی میں ہیں آرمی کی مسجد میں سنی صحیح العقیدہ عالم امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں ان کی عدم موجودگی میں کیا فوج کا کوئی دوسرا ایسا شخص کہ جو داڑھی منڈواتا ہو وہ فرائض امامت انجام دے سکتا ہے یا نہیں؟ تفصیل کے ساتھ شریعت کی روشنی میں جلد جواب عنایت فرمائیں۔
سائل: محمد زاہد رضا،انڈین آرمی
باسمه تعالٰی والصلاة و السلام علی رسوله الأعلی
الجواب:داڑھی منڈوانا ممنوع و حرام اور تمام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور بزرگان دین رحمہم اللہ تعالیٰ کے طریقہ کے خلاف ہے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:’’عشر من الفطرۃ قص الشارب، و اعفاء اللحیۃ‘‘ الحدیث۔(صحیح مسلم، ج:۱، ص:۲۲۳، دار احیاء التراث العربی، بیروت/سنن ابن ماجۃ، ج:۱، ص:۱۰۷، دار احیاء الکتب العربیۃ)
ترجمہ:دس چیزیں سنت قدیم انبیائے عظام علیہم الصلوۃ والسلام کی ہیں اُن سے موچھیں کم کرانا، داڑھی حد شرع تک چھوڑ دینا۔
تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، درر الحکام شرح غرر الاحکام، البحر الرائق، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی اور درمختار وغیرہ میں ہے:’’أما الأخذ منہا (أی من اللحیۃ) وہی دون ذلک (أی القبضۃ) کما یفعلہ بعض المغاربۃ و مخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الأعاجم‘‘۔(الدر المختار، باب مایفسد الصوم وما لایفسدہ، ج:۲، ص:۴۱۸، دار الفکر، بیروت، ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ء)
ترجمہ:لیکن داڑھی تراشنا جب کہ مشت بھر سے کم ہو جیسا کہ بعض مغاربہ (مغربی باشندے) اور زنانہ وضع کے مرد کیا کرتے ہیں پس اہلِ علم میں سے کسی بھی عالم نے اس کو مباح نہیں فرمایا۔ اور پوری داڑھی مونڈنا یہ ہندوستانی یہودیوں اور عجمی آتش پرستوں کا طریقہ ہے۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:’’حلق کردن لحیہ حرام ست و روِشِ افرنج و ہنود و جوالقیان، کہ ایشاں را قلندریہ نیز گویند، وگزاشتن آں بقدرِ قبضہ واجب ست، و آں کہ آں را سنت گویند بمعنی طریقۂ مسلوک در دین ست یا بجہت آں کہ سنت ست چناکہ نمازِ عید را سنت گفتہ اند‘‘۔(اشعۃ اللمعات، ج:۱، ص:۲۱۲، الفصل الأول، کتاب الطہارۃ، باب السواک)
ترجمہ:داڑھی منڈانا حرام ہے، یہ افرنگیوں،(انگریزوں) ہندوؤں اور جوالقیوں کا طریقہ ہے جو قلندریہ بھی کہلاتے ہیں۔ داڑھی بمقدار ایک مٹھی چھوڑنا واجب ہے، داڑھی کے متعلق جو کہا جاتا کہ سنت ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ دین میں ایک جاری طریقہ ہے یا یہ وجہ ہے کہ اس کا ثبوت سنت سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری بریلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:’’داڑھی حد مقرر شرعی سے کم نہ کرنا واجب اور حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی سنت دائمی اور اہلِ اسلام کے شعائر سے ہے اور اس کا خلاف ممنوع و حرام اور کفار کا شعار‘‘۔(فتاوی رضویہ، قدیم، نصفِ دوم، ج:۹، ص:۲۹، رضا اکیڈمی، ممبئی،۱۴۱۵ھ/۱۹۹۴ء)
جو شخص داڑھی منڈواتا ہو یا حد مقرر شرعی سے کم کرتا ہو فاسقِ معلن ہے اور فاسق کو امام بنانا ممنوع و گناہ ہے اس کے پیچھے پڑھی گئی نماز کو دہرانا واجب ہے۔
علامہ عابدین شامی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:’’و أما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، و بأن فی تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم اہانتہ شرعاً‘‘۔(فتاوی شامی، ج:۱، ص:۵۶۰، دار الفکر، بیروت، ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ء)
ترجمہ:فاسق کی امامت کے مکروہ ہونے کی فقہا نے یہ علت بیان کی ہے کہ وہ اپنے دین کی تعظیم و اہتمام نہیں کرتا اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ امامت کے لیے اس کی تقدیم میں تعظیم ہوگی حالانکہ شرعاً لوگوں پر اس کی اہانت کا حکم ہے۔
اسی میں ہے:’’بل مشی فی شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ [یعنی الفاسق] کراہۃ تحریم‘‘۔(فتاوی شامی، ج:۱، ص:۵۶۰، دار الفکر، بیروت، ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ء)
ترجمہ:بلکہ شرح منیہ میں ہے کہ اس کی تقدیم مکروہ تحریمی ہے۔
حضرت علامہ حسن بن عمار شرنبلالی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:کرہ امامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب اہانتہ شرعاً فلایعظم بتقدیمہ للامامۃ واذا تعذر منعہ ینتقل عنہ الی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا‘‘۔(مراقی الفلاح مع حاشیتہ الطحطاوی، ص:۳۰۲، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۸ھ/۱۹۹۷ء)
ترجمہ:فاسق عالم کی امامت مکروہ ہے کیونکہ وہ دین کی اتباع کا اہتمام نہیں کرتا، لہذا شرعاً اس کی تذلیل واجب ہے پس امامت کے لیے تقدیم کی صورت میں اس کی تعظیم درست نہیں، جب اُس کا روکنا دشوار ہو تو ایسے حضرات کو جمعہ وغیرہ کے لیے دوسری مسجد میں چلے جانا چاہیے۔
اسی میں ہے:’’أن امامۃ الفاسق مکروہۃ تحریماً‘‘۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص:۳۰۲، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۸ھ/۱۹۹۷ء)
ترجمہ:فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:’’لما صرحوا بہ من کراہۃ الصلاۃ خلف الفاسق و ان کل صلاۃ ادیت مع کراہۃ فانہا تعاد وجوبا لوتحریمۃ، وندبا لو تنزیہۃ وقد اختار المحقق الحلبی کراہۃ التحریم فی الفاسق وہو قضیۃ الدلیل لاسیما اذا کان معلنا‘‘۔(فتاوی رضویہ، قدیم، ج:۳، ص:۱۵۱، رضا اکیڈمی، ممبئی،۱۴۱۵ھ/۱۹۹۴ء)
ترجمہ:جیسا کہ فقہا نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ فاسق کے پیچھے نماز مکروہ ہے اور ہر وہ نماز جو کراہت کے ساتھ ادا کی جائے اس کا لوٹانا واجب اور تنزیہی کی صورت میں لوٹانا مستحب ہے، اور محققِ حلبی نے اقتدائے فاسق کے مکروہِ تحریمی ہونے کو مختار قرار دیا ہے اور یہی دلیل کا تقاضہ ہے، خصوصاً جب کہ وہ فاسقِ معلن ہو۔
اسی میں ہے:’’فاسق کے پیچھے نماز ناقص و مکروہ، اگر پڑھ لی تو پھیری جائے اگرچہ مدت گذرچکی ہو‘‘۔(فتاوی رضویہ، قدیم، ج:۳، ص:۱۵۱، رضا اکیڈمی، ممبئی،۱۴۱۵ھ/۱۹۹۴ء)
اسی میں ہے:’’فاسق معلن کے پیچھے نماز منع ہے، اُسے امام بنانا گناہ ہے، اُس کے پیچھے جو نمازیں پڑھی ہوں اُن کا پھیرنا واجب ہے‘‘۔(فتاوی رضویہ، قدیم، ج:۳، ص:۲۷۴، رضا اکیڈمی، ممبئی،۱۴۱۵ھ/۱۹۹۴ء)
صدر الشریعہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:’’اور فاسقِ معلن جیسے شرابی، جواری، زناکار، سود خوار اور چغل خور وغیرہم جو کبیرہ گناہ بالاعلان کرتے ہیں ان کو امام بنانا گناہ ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے‘‘۔(بہار شریعت، ج:۱، ح:۳، ص:۲۳۶، فرید بکڈپو، دہلی)
نماز کی امامت ایک اعلیٰ منصب و عہدہ ہے اس عہدہ پر وہی شخص فائز ہو سکتا ہے جس میں امام کے تمام شرائط پائے جاتے ہوں وہ شخص جو داڑھی منڈواتا ہو یا کوئی دوسرا حرام کام کھلم کھلا کرتا ہو وہ شخص امام نہیں بن سکتا ایسے شخص کو امام بنانا ممنوع و گناہ ہے اور اس کے پیچھے پڑھی گئی نمازوں کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم