عنوان:وہابی سے تعلقات کا حکم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید ایک حافظ قرآن ہے اور اس کا سگا بہنوئی وہابی مولوی ہے۔زید کے گھر اس وہابی مولوی کا آنا جانا ہے اور زید کے گھر والے اس وہابی مولوی سے تعلقات بھی رکھتے ہیں۔اور زید جس گھر میں رہتا ہے اسی گھر میں وہ وہابی مولوی بھی آتا ہے اور زید ہی اپنے گھر کے اخراجات بھی پورے کرتا ہے،ضرورت پڑنے پر ایک مسجد میں امامت بھی کرائی جاتی ہے۔زید ایک سنی مسجد کا ٹرسٹی بھی ہے اور ایک سنی مدرسے میں بھی پڑھاتا ہے۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید سے تعلقات رکھنا اور سنی مسجد میں امام بنانا نیز سنی مدرسے میں مدرس رکھنا اور کسی سنی مسجد کا ٹرسٹی بنانا از روئے شرع جائز ہے یا نہیں؟
نیز جن لوگوں نے امام بنایا یا سنی مدرسے میں بحیثیت مدرس رکھا جو ان تمام معاملات کو جانتے ہوئے زید سے تعلقات رکھتے ہیں ان سب پر شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟
المستفتیان:عمران رضا وعوام اہل سنت، میٹھی کھاری، لمبایت، سورت
باسمه تعالٰی والصلاة و السلام علی رسوله الأعلی
الجواب: دیوبندی وہابی اپنے عقائد کفریہ کے سبب کافر و مرتد،بے دین اور ایسے بدعتی ہیں جن کی بدعت حد کفر تک پہنچ چکی ہے علماے حرمین شریفین نے ان کے متعلق فتویٰ دیا:’’من شك في كفره وعذابه فقد كفر‘‘۔
یعنی جو شخص ان کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ خود بھی کافر ہے۔
لہذا ایسے لوگوں سے میل جول رکھنا،اپنے یہاں مہمان بنانا،ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا،ان کو عزت دینا،ان کی صحبت اختیار کرنا شرعاًناجائز و حرام ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وإما ينسينك الشيطان فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين‘‘(سورہ انعام،پارہ ۷،آیت ۱۸)
تفسیرات احمدیہ میں مذکورہ بالا آیت کے تحت ہے:’’الظالمين يعم الكافر والفاسق والمبتدع والقعود معهم ممتنع‘‘(تفسیرات احمدیہ،ص٣٦٣،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
حدیث شریف میں ہے:’’لا تجالسوهم ولا تواكلوهم ولا تشاربوهم ولا تناكحوهم‘‘(کنز العمال،ج١١،ص٥٤٠،مؤسسة الرسالة،بیروت)
دوسری حدیث شریف میں ہے:’’من وقر صاحب بدعة فقد اعان على هدم الدين‘‘ (مشکوٰۃ المصابيح،كتاب الايمان،باب الإعتصام بالكتاب والسنة،ص٦٦،حدیث١٨٩،المكتب الإسلامي)
بلکہ احادیث میں ان سے ملنے کی سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی گئی ہے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’إذا رأيتم صاحب بدعة فاكفهروا في وجهه فإن الله تعالى كل مبتدع‘‘۔(تاريخ مدينة دمشق،ج٤٣،ص٣٣٧،مطبوعة دار الفكر بيروت)
دوسری حدیث میں ہے:’’إن مرضوا فلا تعودوهم وإن ماتوا فلا تهشدوهم وإن لقيتم فلا تسلموهم‘‘۔(كنز العمال، ج١١، ص٥٤٢، حديث٣٢٥٤٢، مطبوعة المكتب الاسلامي)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:’’أهل البدع شر الخلق والخليقۃ‘‘(فيض القدير،ج٣،ص٦٤،حديث٢٧٦١،دار المعرفة بيروت)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں:’’وہابیہ وغیر مقلدین و دیوبندی و مرزائی آج کل سب کفار و مرتدین ہیں،ان کے پاس نشست و برخاست حرام ہے،ان سے میل جول حرام ہے اگر چہ اپنا باپ یا بھائی یا بیٹے ہوں اور ان لوگوں سے کسی دنیاوی معاملت کی بھی اجازت نہیں كما بيناه في المحجة المؤتمنة ان کے پاس بیٹھنے والا اگر ان کے پاس بیٹھتا ہے یا ان کے کفر میں شک رکھتا ہے اور وہ ان کے اقوال سے مطلع ہے تو بلا شبہ کافر ہے‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم، ج:٢١،ص:٢٧٨،رضا فاؤنڈیشن)
تاج دارِ اہلِ سنت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:’’جو مرتدین ہیں نیچڑی وہابی دیوبندی قادیانی رافضی ان سے میل جول رسم و راہ کیسی،نری معاملت بھی حرام ہے‘‘۔(فتاویٰ مفتی اعظم ہند،ج٥،ص٣٣٧،امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف)
فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:’’وہابیوں سے سلام و کلام کرنا سخت ناجائز و حرام ہے‘‘۔(فتاویٰ فقیہ ملت،ج:١،ص:١٨،مطبوعہ مکتبہ فقیہ ملت)
لہذا صورت مسئولہ میں بر تقدیر صدق سوال زید اور اس کے گھر والوں کا اس دیوبندی سے میل جول رکھنا،اپنے یہاں مہمان بنانا،اس کے یہاں شادی بیاہ کرنا،اس کو عزت دینا،اس کی صحبت اختیار کرنا،سلام وکلام کرنا ناجائز و حرام،بد کام،بد انجام ہے۔زید سچی توبہ کے بعد امامت و تدریس وغیرہ کا فریضہ انجام دے سکتا ہے جب کہ دوسری شرعی ممانعت نہ پائی جائے، اور جب تک توبہ نہ کرے اس کو امام و مدرس وغیرہ بنانا منع ہے۔
ہاں اس وہابی کے کفریہ عقائد پر مطلع ہوتے ہوئے جو بھی تعلقات رکھے اسے مسلمان جانے تو یہ کفر ہےاور ایسی صورت میں توبہ و تجدید ایمان و تجدید نکاح کریں لازم ہے۔والله تعالى أعلم